رشید آفرین ۔۔۔ قدم قدم سے پیامِ نجات ملتا ہے

قدم قدم سے پیامِ نجات ملتا ہے
ہمارے رُخ سے رُخِ واقعات ملتا ہے

وہی ہوئے ہیں امینِ غمِ محبت بھی
وہ لوگ جن کو غمِ کائنات ملتا ہے

عبث تلاشِ سکونِ حیات ہے لوگو!
’’حیات کھو کے سکونِ حیات ملتا ہے‘‘

نہ ہو سکا ہے مرا کوئی بھی شریکِ سفر
مجھے تو سایا ہی بس اپنے ساتھ ملتا ہے

کریں جہاں میں جو تحقیق خونِ ناحق کی
تو آدمی ہی پسِ واردات ملتا ہے

ذرا گزر تو سہی بے ثبات عالم سے
اِسی کے بعد مقامِ ثبات ملتا ہے

ہمیں تو مل نہ سکا آفریں زمانے میں
سنا ہے دہر میں لطفِ حیات ملتا ہے

Related posts

Leave a Comment